بلیوں کو قدیم دور کے بعد مشرق قریب میں عقیدت دی گئی،اور اسلام نے اس روایت کو اپنے بہترین انداز میں اپنا لیا، جو اس عقیدت سے بالکل ہٹ کر ہے جو دیگر قدیم مذاہب میں بلی کو دی گئی،کچھ مذاہب میں بلی کو ناپاک سمجھا جاتا ہے تو کچھ مذاہب میں اسے حلال جان کر کھایا بھی جا تا ہے جب کہ اسلام نےایک طرف ان کا گوشت کھانے سے منع کیااور دوسری طرف ان کے ساتھ پیارو محبت اور حسن سلوک کرنے کی تلقین بھی کی۔جیسے ایک صحابی کی کنیت ہی ابو ہریرہ (یعنی بلیوں والا) پڑگئی تھی۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ کے نام کے بارے میں مورخین میں اختلاف ہے، کچھ نے لکھا ہے کہ آپؓ کا نام اسلام لانے سے قبل عبد الشمس تھا اور اسلام لانے کے بعد عبد الرحمن رکھا گیا، کسی نے عمر بن عامر لکھا تو کسی نے عبداللہ بن عامر لیکن آپ ؓکا اصل نام راجح قول کے مطابق عبد الرحمن ہے ابوہریرہ آپ کی کنیت ہے اورابوہریرہ، کنیت رکھنے کی و جہ یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک بلی تھی جس کو آپؓ اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے اسی لیے آپؓ کی کنیت ابوہریرہ پڑگئی، یہاں( لفظ ابو ہریرہ) سے ایک بات واضح کردیتےہیں کہ بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں ابو ہریرہ کا مطلب بلی کا باپ ہےحالانکہ یہ معنی لینا بالکل غلط ہے،عربی میں ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہو سکتے ہیںتو جس طرح اَبْ کے معنی باپ کے آتے ہیں اسی طرح اَب کے معنی ،والے یا والاکے بھی آتے ہیں اس اعتبار سے ابوہریرہ کا مطلب ہوا ،بلی والا، ایک دن ابو ہریرہؓ نے دیکھا کے گرمی کی شدت سے ایک بلی دیوار کے ساتھ چمٹی ہوئی ہے، تو انہوں نے اسے اٹھا کر گرمی سے بچانے کے لیے اپنی آستین میں چھپا لیا۔ دوستو! یہ روایات ثابت کرتی ہیں کہ گھر میں بلیاں پالی جا سکتی ہیں اگر کسی کو شوق ہے تو وہ ضرور پورا کرے مگر ان کے کھانے ،اور پینے کا پوراخیا ل رکھا جائے اور اسے کوئی تکلیف اور ایذا نہ دی جائے۔ سائنسی اعتبار سے بھی گھر میں بلی پالنے کا ایک بڑا فائدہ ہے۔وہ یہ کہ بلیوں کو انسانی لمس بے حد پسند ہوتا ہے اور انسان بھی اس سے محظوظ ہوتا ہے،ماہرین کے مطابق بلی کے لمس میں اللہ نے ڈپریشن کے مرض کا علاج رکھا ہے، اس کے بالوں میں خاص قسم کے بیکٹیریا پائے جاتے ہیں، انسانی جسم میں ڈپریشن کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں چنانچہ پالتو بلی کو اپنے ساتھ لپٹا کر بٹھایا اور سلایا جائے، یہ نہ صرف آپ کی بلی کو خوش کرے گا بلکہ آپ کو ڈپریشن سے بھی نجات دلائے گامگر اس سے پہلے اس کی صفائی کا سوفیصد خیال رکھا جائے۔ اب ہم آپ کو بلیوں کے بارے میں کچھ مزید معلومات بتاتے ہیں جوماہرین کے تجربات کے بعد سامنے آئیں ۔ ویسے تویہ معلومات سب کیلئے دلچسپ اور حیرت انگیز ہیںلیکن جنہوں نے بلیاں پال رکھی ہیں ان کےلئے انتہائی فائدہ مند بھی ہیں۔دو بلیاں آپس میں کبھی بھی(میاؤں) کر کے بات نہیں کرتیں، جب بھی آپ کی بلی میاؤں کرے جان لیں کہ وہ آپ سے مخاطب ہے۔اس کے علاوہ بلیوں کی مونچھوں
کے متعلق ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ ان مونچھوں کے ذریعے بلیاں اپنا توازن برقرار رکھتی ہیں، بالکل اسی طرح جیسے اکثر سینگوں والے جانوروں کے سینگوں کے متعلق یہی تاثر پایا جاتا ہے۔تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تاثر سراسر غلط ہے،بلی کی مونچھوں کا اس کے جسمانی توازن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بلیوں کی مونچھیں دراصل ایک سینسر کا کام کرتی ہیں،یہ فاصلے، جگہ اور مختلف اشیاء کے سائز کا پتہ لگاتی ہیں اور بلی کو اس سے آگاہ کرتی ہیں، حتیٰ کہ اندھیرے میں بھی بلی اپنی مونچھوں کے ذریعے کسی بھی فاصلے یا کسی بھی چیز کے سائز کا پتا چلا لیتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بلی کی مونچھیں تنگ جگہوں، یعنی چوہوں کے بل وغیرہ کے سوراخ کی چوڑائی کا بھی اندازہ لگاتی ہیں، بلی اندھیرے میں بھی اپنی مونچھوں کے ذریعے کسی بل کا پتا چلا لیتی ہے کہ وہ کتنا چوڑا ہے۔اگر بلی کسی تنگ جگہ میں جانا چاہتی ہے تو یہ اس کی مونچھیں ہی ہیں جو اسے بتاتی ہیں کہ وہ اس تنگ جگہ میں جا سکتی ہے یا نہیں اور کہیں اندر پھنس تو نہیں جائے گی۔ ماہرین کے مطابق بلی کی مونچھوں کی مختلف حالتیں اس کے موڈز کے بارے میں بتاتی ہیں۔ اگر بلی کی مونچھیں پرسکون حالت میں نیچے کی طرف جھکی ہوئی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ بلی بھی پرسکون حالت میں ہے اور آرام کر رہی ہے۔اگر بلی کی مونچھیں دونوں اطراف میں تنی ہوئی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ بلی دفاعی پوزیشن میں ہے، وہ بہت غصے میں ہے یا کسی چیز سے ڈری ہوئی ہے اور اگر بلی کی مونچھیں آگے کی طرف تنی ہوئی ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ بلی کسی تجسس میں مبتلا ہے، وہ کسی چیز کے شکار میں ہے یا کھیلنے کے موڈ میں ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ بلی کی مونچھیں چونکہ ایک باقاعدہ عضو ہیں جو ان کیلئے سنسر کا کام کرتا ہے چنانچہ کبھی بھی اس کی مونچھیں کاٹنی نہیں چاہئیں، یہ بالکل ایسے ہی ہو گا جیسے آپ نے بلی کی آنکھیں نکال دی ہوں۔ آخر میں ایک سوال کا جواب دیتے ہیں جو ایک بھائی نےنقصان دینے والی بلیوں کے متعلق پوچھا کہ ہمارے گھر میں ایک بلی آتی ہے اور گھر میں رکھے ہوئے چوزوں کو کھا جاتی ہے، کیا ایسی بلی کو قتل کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ تکلیف کا باعث ہے۔ بلی کو کسی بھی صورت ایذاء دینا شرع جائز نہیں ہے۔ بلی ایک پالتو جانور ہے،جیسا کہ پہلے احادیث مبارکہ میں بیان کرچکے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے اس کے بارے میں فرمایا کہ یہ پلید نہیں بلکہ یہ تو گھر میں چکر لگانے والوں میں سے ہے‘ تو بلی کی تمام تر قباحتوں کے باوجود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ نرمی کا اظہار فرمایا ہے، ہمیں بھی آپ ﷺ کی پیروی میں اس کے ساتھ نرمی کرنی چاہیے، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اشیاء کی خود حفاظت کریں، بلی پر ظلم و ستم کرنے کی راہیں تلاش نہ کریں،جس طرح اس پر ظلم کی پاداش میں ایک عورت کو جہنم میں داخل کر دیا گیا۔ ہاں اگر کوئی بلی خون خوار ہے اور گھر کا نقصان کرتی ہے تو اسے مارنے کے بجائے پکڑ کر کسی دور دراز علاقہ میں چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ اپنا ٹھکانہ بدل لے ۔
لیکن اسے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور نا ہی ایذاء دینے کی ۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں